Pakistani Writers are selling out their conscience

کسی قوم کو کبھی اُس کے جاہل عوام تباہ نہیں کرتے۔ بلکہ اُس کا پڑھالکھا دانشور طبقہ اُسے برباد کرتاہے۔پاکستان میں بھی تعلیم یافتہ افراد بقول غالب
صبح ہوئی تو کان پر رکھ کر قلم نکلے
کے مصداق پاکستانی دانشور برائے فروخت موجود ہیں۔ جیسا کہ حبیب جالب نے کہا تھا:
لٹ گئی اس دور میں اہل قلم کی آبرو بک رہے ہیں صحافی بیسواءوں کی جگہ
پاکستانی اینکرپرسنز ‘ کالم نگاروں اور دانشوروں نے قسم کھالی ہے کہ جو سب سے زیادہ دام لگائے گا اُس کے ہاتھوں فروخت ہونے میں تاخیر نہ کریں گے۔یہی نہیں جو عفت ماآب خواتین افسانہ اور ناول نگار ملک کی تہذیب و تمدن پر گوہر افشانی کررہی تھیں انہیں بھی یہودی کارکنوں نے خرید لیا ہے۔کہ وہ ان کی پسند کے موضوعات پر ان کی مرضی کے مطابق لکھیں۔لہذا عمیرہ احمد جیسی معروف ناول نگار نے غیر فطری جنس کے موضوع پر عکس نامی ناول لکھ مارا۔ تاکہ ملک میں بے حیائی عام ہو۔ اسی طرح مایہ ناز مصنفہ عنیزہ سیدنے ایک پڑھی لکھی لاہوری خاتون کی بے راہ روی پرشب گزیدہ جیسافحش ناول لکھ مارا۔ ابھی تک یہی پڑھا تھا کہ کوئی خاتون اپنی کمزوری اور صنفی نزاکت کے سبب کسی کے جبر کا شکار ہوگئی۔لیکن اُس ناول کی ہیروءن اپنی مرضی سے مساج پارلر چلاتی ہے۔ دل چاہا شرم سے ڈوب مروں۔ میں نے فیس بک پر اس کے صفحے پر جاکر اپنا احتجاج ریکارڈکرایا۔ اورعام آدمی اور کربھی کیا سکتا تھا۔ اللہ تعالیٖ کے اس فرمان کو یاد کرکے چپ ہورہا کہ جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلاتے ہیں عبرتناک انجام سے دوچار ہوں گے۔
لیکن بکاءو مال میں خواتین ناول نگار ہی نہیں مردمصنفین بھی شامل ہیں۔ ابھی کل ہی مستنصرحسین تاڑڑ کا ناول غزال شب پڑھا۔ شستہ اور بامحاورہ اردو اور برجستہ اشعار سے مزین یہ ناول صرف عیش کوشی اور بے حیائی ہی نہیں سکھاتا بلکہ دین فروشی اور بے دینی بھی عام کرتا ہے۔اس نے نہ صرف برائے فروخت جنس کا تذکرہ کیا ہے بلکہ شہر کو واحد نہر کو تفصیل سے بیا ن کیا ہے جس میں گندگی اور غلاظت بہتی ہے اور گرمی سے تنگ آئے ہوئے لاہوری جس میں نہاکر فرحت پاتے ہیں۔ تسلی کے لیے ماسکو کی بے ترتیبی ‘ گندگی ‘ بے راہ روی اور عیاشی بھی شامل کردی ہے۔ تاکہ لوگ جان سکیں کہ ایک نظریاتی ملک اور ایک دہریے اور بے دین ملک میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔

وہ بے حیا اور بے غیرت لوگ جنھوں نے بادشاہی مسجد کے گردو نواح میں چکلے آباد کیئے۔ جس کے شہریوں کی اکثریت بھارت کی شرک اور پاکستان دشمنی پر مبنی فلمیں دیکھتی ہے محض اس لیے کہ اس کی ہیروءنیں
تنگ و عریاں لباس سا ڑی پہنتی ہیں اور ہیرو سے چمٹتی ہیں۔ نہ تو لاہوریوں کے علماء اور نہ ہی اس کا تعلیمی نظام انھیں اس بے حیائی سے باز رکھتا ہے۔ لیکن لاہوریوں کو اب بھی لاہور صاف ستھرا اور نجاست سے پاک نظر آتا ہے۔ جب انھیں گندگی کا احساس ہی نہیں ہوگا تو اس کا تدارک کیا کریں گے؟ کیا حب الوطی پورے ملک کے لیے ہوتی ہے یا ایک شہر کے ساتھ؟
کسی نے تعلیم کراچی میں حاصل کی ہو وہیں میرٹ پر جاب حاصل کی ہو اور جہاں اس کی شادی ہوئی ہو اور بچے ہوئے ہوں اس شہر سے نفرت اور صرف لاہور سے محبت کس چیز کیر غمازی کرتی ہے؟ مجھے تو قران پاک کی وہ آیت یاد آتی ہی کہ ‘ تم بہت کم شکر کرتے ہو!’

About Muhammad Javed Iqbal Kaleem

A Reading, writing hobbyist. Like to exchange views so that informed decisions are made possible and the persistent false propaganda of the powers that be could be countered. I am a great believer in collective conscience of humanity as mankind has been bestowed with the capability to distinguish between good and bad. I am open to new views and ideas.
This entry was posted in Pakistan. Bookmark the permalink.

1 Responses to Pakistani Writers are selling out their conscience

  1. SADFADSF نے کہا:

    کوئی امید بر نہیں آتی
    کوئی صورت نظر نہیں آتی
    موت کا ایک دن معین ہے
    نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
    آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
    اب کسی بات پر نہیں آتی
    جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
    پر طبیعت ادھر نہیں آتی
    ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
    ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
    کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
    میری آواز گر نہیں آتی
    داغِ دل گر نظر نہیں آتا
    بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
    ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
    کچھ ہماری خبر نہیں آتی
    مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
    موت آتی ہے پر نہیں آتی
    کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
    شرم تم کو مگر نہیں آتی

تبصرہ کریں